خاور اعجاز ۔۔۔ جو ہے کارِ جہاں وہ حسبِ وعدہ کر لِیا جائے

جو ہے کارِ جہاں وہ حسبِ وعدہ کر لِیا جائے
پھر اُس کے بعد چلنے کا ارادہ کر لِیا جائے

کہیں ہو گی دلِ نامہرباں تیری تسلی بھی ؟
ہوس کا دائرہ کتنا زیادہ کر لِیا جائے ؟

کسی رنگیں طبیعت سے جو دل کی بات کہنی ہے
سو اپنا ترجماں اِک حرفِ سادہ کر لِیا جائے

ستاروں کی ضرورت پڑ گئی تاریکیٔ شب میں
تو اپنے آنسوئوں سے استفادہ کر لِیا جائے

حضوری کی گھڑی ہے ، خاکساروں سے ذرا کہنا
لحد کی خاک کو اپنا لبادہ کر لِیا جائے

Related posts

Leave a Comment