ریگِ صحرا تو کبھی آبِ رواں دیکھتے ہیں
مَیں یہی دیکھتا ہُوں ، لوگ کہاں دیکھتے ہیں
شہرِ خوباں میں نظر آتا ہے کیا کیا ہم کو
آؤ آنکھوں کو پرے رکھ کے یہاں دیکھتے ہیں
اور کیا دیکھتے ہیں جانے یہ دُنیا والے
تُو ہی آتا ہے نظر ہم تو جہاں دیکھتے ہیں
حلقۂ چشمِ غزالاں میں اگر آئے ہیں
کوئی دن اور تماشائے بتاں دیکھتے ہیں
شیخ صاحب کو زباں پر نہ بیاں پر قابو
رَو میں بہ جائیں تو پھر مُڑ کے کہاں دیکھتے ہیں