خرم آفاق ۔۔۔۔۔ کوشش کے باوجود بھی ساکن نہیں رہا

کوشش کے باوجود بھی ساکن نہیں رہا
کچھ دن میں سامنے رہا، کچھ دن نہیں رہا

پہلے یہ ربط میری ضرورت بناؤ گے

اور پھر کہو گے رابطہ ممکن نہیں رہا

ہم ایک واردات سے تھوڑے ہی دور ہیں

وہ ہاتھ لگ گیا ہے مگر چھن نہیں رہا

اسکول کے دنوں سے مجھے جانتے ہو تم

میں آج تک سوال کیے بن نہیں رہا

اک رات اس نے چند ستارے بجھا دیے

اُس کو لگا تھا کوئی انھیں گن نہیں رہا

Related posts

Leave a Comment