دانش عزیز ۔۔۔ ترے قریب یہ مجھ کو مزید کر دے گی

تِرے قریب یہ مجھ کو مزید کر دے گی
یہ سَرد مہری بھی چاہت شدید کر دے گی

کسی بھی طور ہوا کا یہ رخ بدلنا ہے
یہ بدحواس تو پتے شہیدکر دے گی

نہ میرے ساتھ پلٹنے کی گفتگو کرنا
یہ ایک بات مجھے پرامید کر دے گی

وہ شعر فہم زمانہ شناس لڑکی ہے
غزل کہے گی تو لہجہ جدید کر دے گی

یہ پیش گوئی نہیں اک کھلی حقیقت ہے
تجھے یہ خود سری خود سے بعید کر دے گی

وہ بارشوں سے بھرے پانیوں کے برتن کو
لبوں سے چھو کے طہورہ کشید کر دے گی

حِنائی ہاتھ کی پوروں میں ایک جادو ہے
وہ شاہ زادی ضرر کو مفید کر دے گی!!

ابھی بھی وقت ہے دانِش سے کام لو ورنہ
یہ عاشقی ہے ! یہ مِٹی پلید کر دِے گی !!!

Related posts

Leave a Comment