دل کو پیہم وہی اندوہ شماری کرنا
ایک ساعت کو شب و روز پہ طاری کرنا
اب وہ آنکھیں نہیں ملتیں کہ جنھیں آتا تھا
خاک سے دل جو اَٹے ہوں، اُنھیں جاری کرنا
موت کی ایک علامت ہے، اگر دیکھا جائے
روح کا چار عناصر پہ سواری کرنا
تُو کہاں، مرغِ چمن! فکرِ نشیمن میں پڑا
کہ ترا کام تو تھا نالہ و زاری کرنا
ہوں مَیں وہ لالۂ صحرا کہ ہُوا میرے سپرد
دشت میں پیرویٔ بادِ بہاری کرنا
اِس سے پہلے کہ یہ سودا مرے سر میں نہ رہے
دستِ قاتل کو عطا ضربتِ کاری کرنا
یہ جو ٹپکا ہے زباں پر سو کرم ہے یہ ترا
اب رَگ و پے میں اسے جاری و ساری کرنا
بخشنا لعل و جواہر سے سوا تابِ سخن
خاک کو انجمِ افلاک پہ بھاری کرنا