وہ شہر کسی شہر میں محدود نہیں تھا
اُس میں وہ سبھی کچھ تھا جو موجود نہیں تھا
خاموش کچھ ایسا تھا کہ بس تھا ہی نہیں دل
آباد بس اتنا تھا کہ نابود نہیں تھا
گم ہو گئی زنجیر کی آواز میں آواز
افسوس کہ ہم میں کوئی داؤد نہیں تھا
مقبول نہیں گرچہ مرے دل کی معیشت
یاں کوئی خسارہ کبھی بے سُود نہیں تھا
چُھو کر اُسے دیکھا تھا مکرّر نہیں دیکھا
عادل وہ مرا خواب تھا، مقصود نہیں تھا