وہ حب جس کی ذکی تمثیل بحرِ بے کراں تک ہے
مآل اس کا بھی صد افسوس بس اک داستاں تک ہے
مکاں سے لا مکاں تک ہے زمیں سے آسماں تک ہے
ہماری ذات کی وسعت خدا جانے کہاں تک ہے
مری خانہ خرابی پر نہ جا قسمت ہے یہ میری
مری تخئیل کی تعمیر بھائی لامکاں تک ہے
تو پھر کیونکر نہ خوشبو دیں وجود و فن کی میراثیں
علاقہ ہی مرا جبکہ چمن سے گلستاں تک ہے
ملاقاتوں میں تیری والہانہ پن نہیں ملتا
تو کیا تیری محبت محض اے ہمدم زباں تک ہے
گریزاں ہے وہ میرے نام کی پرچھائیوں سے بھی
نہیں معلوم تھا مجھ سے اسے نفرت یہاں تک ہے
نشانہ جس کا بس میرا تنِ نازک ہے اے یارو
رسائی ایسے ہر اک تیر کی اس کی کماں تک ہے
مجھے مت دیکھ تو پرواز کی عظمت پہ رکھ نظریں
مری گردِ سفر تاروں کی دلکش کہکشاں تک ہے