میں نے قسمت کو آزمایا تھا
وہ مری زندگی میں آیا تھا
میں نے اپنا سمجھ لیا تجھ کو
تو جو اپنا نہیں پرایا تھا
اس کے دل میں تھا کوئی پہلے سے
جس کسی سے بھی دل لگایا تھا
ساتھ تیرے رہا جو برسوں سے
میں نہیں تھا وہ میرا سایہ تھا
خواب میں اک خیال تھا شاید
اس نے جیسے گلے لگایا تھا
میرے آنگن میں پھول کھلتے گئے
وہ جو بھولے سے مسکرایا تھا
روشنی میں جو میرے ساتھ رہا
میں تھا‘ تو تھا یا میرا سایہ تھا
وہ تصور تھا یا کوئی تصویر
تیرے آنے پہ کون آیا تھا؟
وقت ساکت، مقام بھی ساکت
حسن نے معجزہ دکھایا تھا
Related posts
-
رضی اختر شوق ۔۔۔ کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں
کیسے جیئیں قصیدہ گو، حرف گروں کے درمیاں کوئی تو سر کشیدہ ہو، اتنے سروں کے... -
خالد علیم ۔۔۔ نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ
نواحِ شام کی اے سرد خو ہوائے فراغ جلا رہا ہوں میں اپنے لہو سے دل... -
آصف شفیع ۔۔۔ پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے
پھر اسی آنکھ کا نظارا ہے جس کا نشہ ابھی اتارا ہے راز یہ دل پہ...