رخشندہ نوید ۔۔۔ ہر گھڑی موت کا ڈر نہیں چاہیے

ہر گھڑی موت کا ڈر نہیں چاہیے
زندگی جا! یہ ٹرٹر نہیں چاہیے

میں محبت کو دنیا میں پھیلاؤں گی
مجھ کو بتلا! تجھے گر نہیں چاہیے

ایک خالی سا رکھا ہے ڈبا کوئی
مجھ کو شانوں پہ یہ سر نہیں چاہیے

رقصِ بسمل کو محدود کیسے کروں
مجھ کو اتنا بڑا گھر نہیں چاہیے

پار دریا کسی نے پکارا مجھے
ان پرندوں کو ہی پر نہیں چاہیے

عشق میں جتنی جائز ہیں سفاکیاں
ظلم کچھ اس سے بڑھ کر نہیں چاہیے

رات ہو ، کہ ہو دن کا کوئی بھی پہر
شور ، ہنگامہ و شر نہیں چاہیے

دیکھ مجھ کو کبھی تو نے دیکھا مجھے
وہ جسے زیور و زر نہیں چاہیے

Related posts

Leave a Comment