رشید آفرین ۔۔۔ دل کے جو بھی غلام رہتے ہیں

دل کے جو بھی غلام رہتے ہیں
موت سے ہم کلام رہتے ہیں

سر بکف راستی کے سب پیکر
ظرف کے زیرِ دام رہتے ہیں

خون پینا ہی جن کی خصلت ہو
عمر بھر تشنہ کام رہتے ہیں

چاہِ غم میں کبھی جو اُترا ہوں
ہوش بالائے بام رہتے ہیں

جگ میں زندہ ہیں وہ سدا جن کے
تذکرے صبح و شام رہتے ہیں

رہرروانِ جنوں کی راہوں میں
دیپ تو گام گام رہتے ہیں

جو رہیں منسلک مشقت سے
منتظر اُن کے کام رہتے ہیں

دوسروں کے لیے ہیں تعبیریں
خواب سب میرے نام رہتے ہیں

وہ فقیروں سے فیض پاتے ہیں
جو بھی دامن کو تھام رہتے ہیں

جو جنُوں کو نہ آفریں سمجھیں
وہ خرد کے غلام رہتے ہیں

Related posts

Leave a Comment