رضا اللہ حیدر ۔۔۔ مر جاؤں نہ کیوں پھر سرِ بازار گری ہے

مر جاؤں نہ کیوں پھر سرِ بازار گری ہے
روٹی کی طلب میں مری دستار گری ہے

گھائل ہوئے پھرتے ہو فقط ایک ادا سے
یہ برق مری جان پہ سو بار گری ہے

سنتے ہیں کہ پھر اس نے تو پانی نہیں مانگا
جس پر بھی کڑے وقت کی تلوار گری ہے

یہ میری تمنا ہے بڑے لاؤ سے پالی
قدموں پہ مرے ہو کے جو ناچار گری ہے

خورشیدِ ضیابار سے آنکھوں میں چمک ہے
صد شکر کہ پھر رات کی دیوار گری ہے

گاتے ہوئے جاتی تھی سرِ شام اُفق کو
کیا جانیں کہاں کونجوں کی وہ ڈار گری ہے

رخسار کی پتی پہ سرِشام رضا آج
اک بوند سی پانی کی لگاتار گری ہے

Related posts

Leave a Comment