رفعت وحید ۔۔۔ بس اتنا چاہتی ہوں وصل کی اک رات حاصل ہو

بس اتنا چاہتی ہوں وصل کی اک رات حاصل ہو
مری آنکھوں کو تیرے نور کی سوغات حاصل ہو

مرے اندر جو رہتا ہے مخاطب ہو کبھی مجھ سے
اکیلی چل رہی ہوں میں کسی کا ساتھ حاصل ہو

میں تیاگی ہوں مرے اندر کوئی ارماں نہیں باقی
بجز اس کے کہ قربِ اصل ِموجودات حاصل ہو

میں اپنے آپ میں رہتی ہوں خود کو جانتی کب ہوں
پتہ کچھ تو چلے کچھ تو سراغِ ذات حاصل ہو

حیات و موت کے چکر سے چھٹکارا نہیں مشکل
اگر کچھ طاقتِ تبدیلی اوقات حاصل ہو

زمینوں کے حجر ، حیواں ، شجر باتیں کریں مجھ سے
مجھے ادراکِ احساساتِ مخلوقات حاصل ہو

Related posts

Leave a Comment