یوں بظاہر تو کسی دشت کی ویرانی ہے
ورنہ آنکھوں میں سمندر سے سوا پانی ہے
میں تو پھر لمحۂ موجود میں ہوں، زندہ ہوں
عہد ِگم گشتہ مجھے تیری پریشانی ہے
تو نہ ہوگا تو مجھے کوئی نہ پہچانے گا
تو مرادل، مری آنکھیں ،مری پیشانی ہے
اب مرے پاس نہیں کچھ بھی سوائے تیرے
اب مجھے چین ہے، آرام ہے، آسانی ہے
یہ جو چلنے کا ہنر اس نے ہمیں بخشا ہے
ہم غریبوں کو یہی تختِ سلیمانی ہے