تھکن کے چڑھتے اترتے خُمار تھک گیا میں
قرار! گردشِ لیل و نہار تھک گیا میں
مرے چراغ، مرے ہم نشیں خدا حافظ!
مرے سکوت، مرے انتظار تھک گیا میں
ہواؤ، آؤ اُڑاؤ ذرا مری بھی خاک
اُڑا اُڑا کے یہ گرد و غُبار تھک گیا میں
میں تنگ آیا گریبان چاک کر کر کے
کہ توڑ توڑ کے غم کا حصار تھک گیا میں
زمانے تجھ کو مبارک ترے ادب آداب
اٹھا اٹھا کے تکلف کا بار تھک گیا میں
اگر کسی نے خریدا نہ آج بھی مرا دِن
تو معذرت مرے لیل و نہار تھک گیا میں