نیند کے سیلاب میں ہوتا کہیں
اِک جزیرہ خواب میں ہوتا کہیں
وہ نظر مجھ پر نہیں پڑتی اگر
آج بھی گرداب میں ہوتا کہیں
چھیڑتا میں راگ کی صورت تجھے
تُو اگر مضراب میں ہوتا کہیں
شعر لکھنے کا مزا آتا اگر
چاند بھی تالاب میں ہوتا کہیں
ٹاٹ کی جانب کبھی جاتا نہ میں
لُطف جو کمخواب میں ہوتا کہیں
آپ نے رد کر دیا ہے ورنہ تو
گوہرِ نایاب میں ہوتا کہیں
بج رہا ہوتا مرا ڈنکا سحر
میں اگر پنجاب میں ہوتا کہیں