سحرتاب رومانی ۔۔۔ کہاں تک ساتھ چلتے جُھوٹ کے ہم

کہاں تک ساتھ چلتے جُھوٹ کے ہم
مسافر ہی نہ تھے اِس رُوٹ کے ہم
حقیقت جانتے ہیں تیری دنیا
کُھلے رکھتے ہیں تسمے بُوٹ کے ہم
بلندی پر تھے لیکن ایک دن پھر
گرے ہاتھوں سے تیرے چُھوٹ کے ہم
ابھی تو صرف آنکھیں نم ہوئی ہیں
ابھی روئے کہاں ہیں پُھوٹ کے ہم
بہت سی تلخیوں کو پی رہے ہیں
شرابِ ناب میں اب کُوٹ کے ہم
چراغوں کا دھواں باقی رہے گا
چلے جائیں گے محفل لُوٹ کے ہم
سحر دیکھیں گے اپنی کرچیوں کو
کبھی شیشے کی صورت ٹوٹ کے ہم

Related posts

Leave a Comment