دشتِ غم میں کھلا پھول جذبات کا
کتنا سندر تھا رنگِ حنا ہات کا
جس جگہ ہر خوشی غم کا عنواں بنے
کون مہماں ہو ایسے محلات کا
بھولی بسری ہوئی یاد کے بادلو
مینہ نہ برسے گا اب پھر ملاقات کا
بعدِ ترکِ تمنا بھی میلے رہے
شہر سونا ہوا کب خیالات کا
زندگی کو نگل جائے گی تیرگی
سر پہ سورج نہ آئے گا حالات کا
ہجر کی زُلف بکھرے تو احمدکبھی
ختم ہوتا نہیں سلسلہ رات کا