سید آل احمد ۔۔۔ دھوپ اور چھاؤں کا کربِ ذات لکھتا تھا

دھوپ اور چھاؤں کا کربِ ذات لکھتا تھا
دیدہ ور تھا دوری کو اختلاط لکھتا تھا

زخم زخم گنتا تھا روشنی میں جگنو کی
حرف حرف پلکوں پر سچی بات لکھتا تھا

میں بھی ان خلاؤں میں ایک لحظہ پہلے تک
خواب کا مسافر تھا‘ خواہشات لکھتا تھا

صبحِ جاں کی شبنم ہو‘ دُھوپ ہو بدن کی تم
سچ بتاؤ یہ جملے کس کا ہات لکھتا تھا

برگِ زرد ہونے تک میں ہوا کی تختی پر
منتظر نگاہوں سے التفات لکھتا تھا

پوچھتے ہیں بام و در‘ کون‘ شہر ناپرساں!
آنے والی ہر رُت کو بے ثبات لکھتا تھا

خوب آدمی تھا وہ شہر کی اُداسی پر
خامۂ تبسم سے دن کو رات لکھتا تھا

کتنا اُنس تھا اُس کو میری ذات سے احمدؔ
جو بھی خط وہ لکھتا تھا ’’دل نشاط‘‘ لکھتا تھا

Related posts

Leave a Comment