غمِ حالات سہیں یا نہ سہیں سوچ میں ہیں
ہم دُکھی لوگ کسے اپنا کہیں سوچ میں ہیں
جسم اور روح کے مابین کسک کس کی ہے
ذہنِ ذی فہم کی کتنی ہی تہیں سوچ میں ہیں
کوئی آواز‘ نہ پتھر‘ نہ تبسم‘ نہ خلوص
اب ترے شہر میں ہم کیسے رہیں سوچ میں ہیں
کیسا اخلاص کہ ہیں مصلحت اندیش تمام
ہم بھی کیوں ان کی طرح خوش نہ رہیں‘ سوچ میں ہیں
شہر بے خواب میں کب تک تن تنہا احمدؔ
برگِ آوارہ کی مانند رہیں‘ سوچ میں ہیں