سید آل احمد ۔۔۔ وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں

وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں
حرف کا دشت ہوں معنی کا سمندر ہوں میں

کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے
کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں

مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا
منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں

اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ
اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں

آخرِ شب ہے‘ مری ذات سے نظریں نہ چرا
اے غمِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں

شہر میں حفظِ مراتب کا بہت قحط ہے اب
آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں

Related posts

Leave a Comment