دستار دیکھتے ہیں تو سر دیکھتے نہیں
خانہ بدوش لوگ ہیں گھر دیکھتے نہیں
اِک عمر سے کھڑا ہوں کہ دیکھے مجھے کوئی
میری طرف کیوں اہلِ نظر دیکھتے نہیں
رفتار سست کرتا ہے زادِ سفر کا بوجھ
رختِ سفر کو وقتِ سفر دیکھتے نہیں
رونق ہے دیکھنے سے ہی سارے جہان میں
کس کام کی ہے دنیا اگر دیکھتے نہیں
کن پنچھیوں کو دیکھنے آئے ہو تم یہاں
خالی پڑے ہوئے ہیں شجر دیکھتے نہیں
بے کار دیکھتے ہیں اِدھر کو اُدھر کو ہم
جس سمت دیکھنا ہو اُدھر دیکھتے نہیں