سید علی مطہر اشعر ۔۔۔ کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں

کس طرح نزدیک تر ہوں فاصلے کیسے گھٹائیں
پھول سے چہرے ہیں لیکن پتھروں جیسی انائیں

خوف کی بنیاد پر اُٹھے ہیں بچوں کے بدن
بوئے خوں لاتی رہی ہیں گھر میں مقتل کی ہوائیں

آپ کی خوشیوں کے گہوارے خدا قائم رکھے
آیئے ہم آپ کو اپنا عزا خانہ دکھائیں

رابطہ رہتا ہے ساری رات دیواروں کے ساتھ
گفتگو کرتی ہے مجھ سے گھر کی سائیں سائیں

پیرہن تیرا ہی جیسا ہم بھی لے آئیں، مگر
اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں

ہم بھی ان سے گفتگو کر لیں جو ممکن ہو سکے
وہ کسی دن روزنِ دیوار کی زد میں تو آئیں

قریہ قریہ دے رہے ہیں لوگ سورج کی خبر
لیکن اے زندہِ دلانِ شب دیے بجھنے نہ پائیں

لوگ کہتے ہیں کہ اشعر نا امیدی کفر ہے
ایک دن کشتِ تمنا پہ بھی برسیں گی گھٹائیں

Related posts

Leave a Comment