گو شامِ اِنتظار سے آگے نہیں گیا
دل تو خیالِ یار سے آگے نہیں گیا
پانے کی اُس کو دل میں تمنا تو تھی بہت
یہ سِلسِلہ بھی پیار سے آگے نہیں گیا
مغرب نے چاند پر بھی ٹھکانے بنا لئے
مشرِق ہے ,کوئے یار سے آگے نہیں گیا
اِک مبتلائے کرب ہے ,دشتِ جُنوں میں دل
اُٹھتے ہوئے غُبار سے آگے نہیں گیا
رسمِ وفا ہے جان کو جوکھوں میں ڈالنا
اِک میں ہی در کِنار سے آگے نہیں گیا
اِک بیخودی تھی پیار میں ,سیارہ بن گیا
رقصاں رہا,مدار سے آگے نہیں گیا
سید حَسین لوگوں کا اسلوبِ دل لگی
دیکھا ہے,کاروبار سے آگے نہیں گیا