شاہد اشرف… اس طرح شہری گھروں میں خوف سے بیٹھے ہوئے ہیں

اس طرح شہری گھروں میں خوف سے بیٹھے ہوئے ہیں
جیسے زنداں میں سزائے موت کے قیدی پڑے ہیں

جب کوئی باہر نکلنا چاہتا ہے گھر سے اپنے
چار جانب سے کئی نا دیدہ خدشے دیکھتے ہیں

جاگتے میں دیکھ لوں گا, تم اگر سونے نہ دو گے
خواب تکیے پر جو میرے قابلِ ضبطی رکھے ہیں

سر اُٹھائے بیل اپنے دھیان میں چھت پر چلی تو
دیکھ کر کھڑکی کھلی کمرے میں کچھ پھول آ گئے ہیں

ماسک مجبوری کو چہرے پر عیاں ہونے نہ دے گا
باوجود اس کے کشادہ دل کھلے بازو کھڑے ہیں

اپنی دانائی پہ نازاں, عقلِ کُل شرمندگی سے
سامنے اپنے خدا کے ہاتھ پھیلانے لگے ہیں

عارضی پابندیوں پر مطمئن تھے لوگ لیکن
مستقل بنیاد پر قیدی بنا کر رکھ دیے ہیں

Related posts

Leave a Comment