شاہد ماکلی… چراغاں ہے ، گل پوش رستے ہیں ، پرچھائیاں ہم قدم ہیں

چراغاں ہے ، گل پوش رستے ہیں ، پرچھائیاں ہم قدم ہیں
ہواؤں کا مارا ہوا ساحلی شہر ہے اور ہم ہیں

نگر کی چکا چوند سے دُور غاروں میں آ بیٹھتا ہوں
جہاں عہدِ رفتہ کی تہذیب کی داستانیں رقم ہیں

خیالات و خواب و خبر کی رسائی ہے عالم بہ عالم
وہاں سے میں گزرا نہیں ہوں، جہاں میرے نقشِ قدم ہیں

عجب منطقہ ہے، جہاں دن سے رات اِس طرح مل رہی ہے
اُجالے اندھیروں میں ضم ہیں،اندھیرے اُجالوں میں ضم ہیں

مرے دل میں ہی موسموں کا تنوّع ہے سب سے زیادہ
مجھی میں بیابان و کہسار و گلزار و دریا بہم ہیں

عجب لوگ ہیں، گھر بناتے ہیں مٹی کے آتش فشاں پر
اور اب دلدلی راکھ میں دھنس چکے تو سراپا الم ہیں

یہ نوشیرواں کا محل، تین شعلوں کے مینار، قلعہ
نظامی کا کانسی کا پیکر۔۔۔جنھیں دیکھ کر آنکھیں نم ہیں

ابھی کوہ قافِ تحیر میں پہلا قدم ہی رکھا ہے
کہ ترتیب کھونے لگے ہیں، جو انفاس کے زیر و بم ہیں

عجب آگ کی سر زمیں ہے، جہاں برف باری بھی دیکھی
عجب خاک ہے،جس کے ذرّوں میں سوز اور ٹھنڈک بہم ہیں

لب و چشم و رخسار ایسے کہ حور و پری کا گماں ہو
در و بام و باغات و بازار ایسے کہ رشکِ ارم ہیں

یہ ساحل پہ لیٹے ہوے ، دُھوپ کا لطف لیتے ہوے لوگ
بظاہر نہ چہروں پہ رنجیدگی ہے، نہ آنکھوں میں غم ہیں

خزاں تم پہ گزری نہیں، تیرگی تم نے دیکھی نہیں ہے
تمھیں کیا خبر، زندگی کے لیے خواب کتنے اہم ہیں

یہ دنیا ہے گوتم سے منسوب رنگین راتوں کا مرکز
یہاں آنے والوں کو عشرت کے سب ساز و ساماں بہم ہیں

جو شعلوں کے مینار میں سیر والوں کی خاطر بنی تھیں
اب اُن آتشیں سیڑھیوں پر ہمارے ہی نقشِ قدم ہیں

وہ یاراں، جنھیں راستوں کی ہوا لے گئی دُور ہم سے
جہاں بھی رہیں، خوش رہیں، وہ ہمارے لیے محترم ہیں

بہار آئے گی، جشنِ نَو روز مل کر منائیں گے دونوں
بالآخر ثمر یاب ہوں گے، جو آپس میں قول و قسم ہیں

جو کب کے گزر بھی چکے ہیں اور اب جن سے رشتہ نہیں ہے
وہ رُت بے نوشتہ نہیں ہے، وہ منظر سپردِ قلم ہیں

زمان و مکاں کی دُکانوں سے ان کے عوَض کیا خریدوں
مری دونوں جیبوں میں متروک خوابوں کے دام و درَم ہیں

ابھی ایک صحرا کی لمبی سیاحت پہ نکلیں گے شاہد
ابھی سیرِ صبحِ چمن کر کے آئے ہیں، اور تازہ دم ہیں

Related posts

Leave a Comment