گُلوں پہ اوس پڑی ، خاک میں نمی جاگی
تھکن سے اُونگھتے منظر میں تازگی جاگی
عجیب عالمِ بیداری میں سفر گزرا
کہ ہر مقام پہ مجھ میں تری کمی جاگی
چمن سے جا چکا تھا پھول لے کے شہزادہ
جب اپنے خوابِ سحر سے بکاؤلی جاگی
نہ گہرے سکتے سے پھر قصہ گو نکل پایا
نہ داستان میں سوئی ہوئی پری جاگی
نہ اپنے آپ میں یکسُو کبھی ہوئے ہم تم
نہ لاشعور میں خوابیدہ روشنی جاگی
میں خوف اوڑھ کے لیٹا تھا ، ہڑبڑا کے اٹھا
وہ خواب تان کے سوئی ، ہنسی خوشی جاگی
دُعا میں جاگ کے راتیں گزار دیں ہم نے
مگر نہ قسمتِ خُفتہ تری مری جاگی
چکور قومی پرندہ تھا جن مچھیروں کا
اُنھی کے دل میں محبت نہ چاند کی جاگی
ہمارے قطبی جزیرے پہ رات تھی اب تک
مہینوں بعد یہاں دُھوپ سی کوئی جاگی
ندی کو دیکھتے رہنے سے لہر اٹھی مجھ میں
چمن کو سوچتے رہنے سے سبزگی جاگی
نظامِ کون و مکاں حدِ انتشار پہ تھا
جب انتظامیہ کون و مکان کی جاگی
نوائے صُورِ سرافیل ہی سے جاگے گی
ہماری مُردہ ضمیری اگر کبھی جاگی
قیامت آئی تو دہشت سے کُھل گئیں آنکھیں
خدا کو دیکھا تو دل میں اُمید سی جاگی