رُکے ہوئے وقت کو رواں کر دیا گیا ہے
بالآخر ازلوں کا دُکھ بیاں کر دیا گیا ہے
فلک کی جانب گیا زمیں کا غبار سارا
مری دھنک کو دُھواں دُھواں کر دیا گیا ہے
مزید آسان ہو گئی ہے رسائی رُخ تک
حجاب ایک اور درمیاں کر دیا گیا ہے
وہ شعلہ جس سے میں اپنی راتیں اُجالتا تھا
اب اُس کا ہونا بھی رایگاں کر دیا گیا ہے
میں آنکھ سے دل میں لے گیا ہوں شبیہ اُس کی
جو شے عیاں تھی، اُسے نہاں کر دیا گیا ہے
زمیں تھی جس پہ ہنسی خوشی دن گزر رہے تھے
زمانہ تھا جس کو لا زماں کر دیا گیا ہے
وقوعہ محفوظ لوحِ محفوظ میں رہے گا
نشانیوں کو ہی بے نشاں کر دیا گیا ہے