شاہد ماکلی ۔۔۔ خدا نہ کردہ کہ ابر و ہوا میں ٹھن جائے

خدا نہ کردہ کہ ابر و ہوا میں ٹھن جائے
زمیں زمیں نہ رہے ، ریگ زار بن جائے

اسے تو چودہ طبق سے گزرنا ہوتا ہے
کرن کے ساتھ کہاں تک کوئی بدن جائے

اب ایک رُت پہ ثمر آئے اور موسم کا
اور اک چمن کی مہک دوسرے چمن جائے

میں چٹکیوں میں اُڑاؤں گا پھر سفوف اس کا
ذرا یہ گاڑھی اُداسی قلم سے چھن جائے

یونہی مہکتی فضاؤں میں سانس لیتا رہوں
ہواؤں سے نہ تری بوئے پیرہن جائے

یہ پیڑ بیج تھا ، یہ بحر بوند تھا شاہد
یہ لمحہ پھیل کے ، ممکن ہے ، عہد بن جائے

Related posts

Leave a Comment