سَو راستے ہیں پیشِ نظر کائنات میں
جائے تو کوئی جائے کدھر کائنات میں
یہ شش جہات میں مِری پہلی اڑان ہے
کھولے ہیں پہلی مرتبہ پر کائنات میں
ہے کائناتی گرد اڑائی ہوئی مری
اتنا رہا ہوں گرمِ سفر کائنات میں
تیری نگہ سے ہوتی ہوئی دل میں آئی تھی
دل سے نکل کے پھیلی خبر کائنات میں
سیّارگی ستارگی سے فیض یاب ہے
روشن ہے تجھ سے میری سحر کائنات میں
جس کی جڑیں زمین میں، شاخیں فلک میں ہیں
غم ہے وہ ارتقائی شجر کائنات میں
بے منظری کا حبس اضافہ پذیر ہے
پیدا کریں دریچہ و در کائنات میں
یہ ہم ہیں جن کا پھیلنا ردِّ کشش سے ہے
تم ہو کشش کے زیرِ اثر کائنات میں
دروازے کھلتے جائیں گے اسرار کی طرح
چاہے قدم اٹھاؤ جدھر کائنات میں
ہر دل کا حال و ماضی و مستقبل اور ہے
یکساں نہیں سمے کا سفر کائنات میں
دُوری ہزار نُوری برس کی بھی ہیچ ہے
دل دل سے ربط میں ہے اگر کائنات میں
ہم شب کے واقعاتی اُفق کے قریب ہیں
رہتا ہے انہدام کا ڈر کائنات میں
خوابوں کی شمسی کشتیاں غرقاب ہو نہ جائیں
ہیں جا بجا سیاہ بھنور کائنات میں
ہم پھر بھی کائنات کے مرکز میں ہی رہے
جتنا پھرے اِدھر سے اْدھر کائنات میں
میں ایک بے خیالی کے لمحے کا وہم ہوں
ہر ذہن سے ہے میرا گزر کائنات میں
ہم خوف کی تجاذبی لہروں میں بہہ گئے
برپا تھا ایک سیلِ خطر کائنات میں
پھیلاؤ میں رہے کبھی سمٹاؤ میں رہے
دو حالتوں میں کی ہے بسر کائنات میں
حیرت کا ایک لا مُتَناہی طلسم ہے
اٹھتی ہے جس طرف بھی نظر کائنات میں
خواہش کے خَس کدے کو جلاؤ گے اب کہاں
شعلہ ہے ذات میں نہ شرر کائنات میں
کیا جانے آشنائی میں کتنا سمے لگے
اب تک تو اجنبی ہے بشر کائنات میں
——-
رہنا کرے پسند اگر کائنات میں
خالق کا ہم بنائیں گے گھر کائنات میں
چاہو تو اُس پہ چلتے رہو نُور کی طرح
اک خطِّ مستقیم ہے ہر کائنات میں
تصویرِ شش جہات میں ہم بھی ہیں، تم بھی ہو
یکجا ہیں سارے عیب و ہنر کائنات میں
ممکن ہے، میری ذات میں اک اور ذات ہو
جیسے ہے کائناتِ دگر کائنات میں
دم بھر نمود کرتا ہے دریا میں بلبلہ
بے مائیگی اٹھاتی ہے سر کائنات میں
اجزائے کائنات سی آزادگی کہاں
یکجائی کے لیے نہ بکھر کائنات میں
ہم آخری کنارے پہ تو خیمہ زن نہیں
رہتا ہے کیوں پھسلنے کا ڈر کائنات میں
پھیلاؤ ہے سیاہ توانائی سے یہاں
وسعت ہے دْوریوں کا ثمر کائنات میں
ہر رُخ سے تاب کار اُداسی کا وار ہے
کب تک رہو گے سینہ سپر کائنات میں
ہم سے زمانوں بعد بھی طے ہو نہیں سکی
یک گام تھی جو راہ گزر کائنات میں
اُن کے کرم کا سایہ ہے سب عالمین پر
اُن کے قدم کا نقش ہے ہر کائنات میں
بس ایک تُو ہے نُور سَماوات و اَرض کا
بس ایک روشنی ہے امَر کائنات میں
شاہد تمام مشرق و مغرب اُسی کے ہیں
کیا سوچنا کہ رْخ ہے کدھر کائنات میں