شاہین عباس ۔۔۔ دن کھا گئے شب سرا ہماری

دن کھا گئے شب سرا ہماری
گھر واپسی ہے یہ کیا ہماری

گزرا بھی نہیں قریب سے وہ
مٹی بھی اُڑا گیا ہماری

اے کوہِ وجود پھر سے اک بار
آواز نکالنا ہماری

ہر کوچ ہمارا کوچ نکلا
زندہ رہے خاکِ پا ہماری

ہم کیسے برہنہ تھے‘ کہاں تھے
رکھی ہی رہی قبا ہماری

ہم بولنے بھی لگیں گے اک دن
تم سنتے رہو صدا ہماری

جیسے کہ شروعِ عشق اچانک
کچھ ایسی تھی ابتدا ہماری

تم روشنی کرکے جا چکے تھے
تربت کوئی دیکھتا ہماری

Related posts

Leave a Comment