شبہ طراز ۔۔۔ دو غزلیں

دیے جلاتے ہوئے راستہ دکھاتے ہوئے
میں چل رہی تھی کسی طور گُنگناتے ہوئے

سُنا ہے تُو بھی اسی شہر میں ہے مدّت سے
کبھی تو مِل انہی راہوں پہ آتے جاتے ہوئے

گزر ہی جاتا ہے یہ وقت رات ہو یا سحر
کہا فلک سے ستاروں نے ٹمٹماتے ہوئے

جو دل دیا تھا مجھے دسترس بھی دے دیتا
تُو سوچتا تو سہی آرزو جگاتے ہوئے

کہاں سے خاک اُٹھائی تھی میری، کوزہ گرا
نمی تھی آنکھ میں تیری مجھے بناتے ہوئے

ہر ایک باب میں اک درد ہانٹ کرتا تھا
میں رو پڑی تھی اُسے داستاں سناتے ہوئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گزارے کیسے کوئی اس قدر ڈَرے ہوئے دن
قدم قدم پہ کئی حادثے دَھرے ہوئے دن

نہ پوچھو ہم سے گزارا ہے کیسے ہجر یہاں
اُٹھاؤ لاش محبت کی ، اور مرَے ہوئے دن

بہت عجیب سے بے رنگ دن گزرتے تھے
بہار آئی تو گلشن میں پھر ہرَے ہوئے دن

وہی جو یادوں میں رہتے ہیں زندگی بن کر
اندھیری راہ میں اِک روشنی کرے ہوئے دن

جو کھوٹے سکّوں کی طرح گزر رہے تھے کبھی
طلوع ہو گیا سورج ، تبھی کھرے ہوئے دن

Related posts

Leave a Comment