آدمی کی کیا حقیقت؟ آدمی کچھ بھی نہیں
زندگی بے قدر شے ہے ، زندگی کچھ بھی نہیں
چاند تاروں سے مزین آسماں بے سود ہے
دل اگر تاریک ہو تو چاندنی کچھ بھی نہیں
حسنِ عیار و ستم ایجاد کے نخرے ، عبث
عشقِ سادہ کی اداسی ، بے کلی کچھ بھی نہیں
جب عصائے موسوی حرکت میں آئے تو کمال
سامنے فرعون ہو یا سامری ، کچھ بھی نہیں
گلشنِ دنیا کی رونق عارضی ہے عارضی
دائمی کچھ بھی نہیں ہے ، سرمدی کچھ بھی نہیں
درحقیقت ، نام ہیں دونوں ترے احساس کے
زخم ہائے آرزو ہوں یا خوشی کچھ بھی نہیں
تذکرہ شوکت نہ ہو جس میں جمالِ یار کا
وہ سخن کچھ بھی نہیں ، وہ شاعری کچھ بھی نہیں