شہاب اللہ شہاب ۔۔۔ آگ میں جلنے جو ہم نکلے شہاب

آگ میں جلنے جو ہم نکلے شہاب
بجھ گئے شعلے سبھی اس کے شہاب

زندگی تو تلخ تر اک چیز ہے
دلربا ہیں اس کے بس قصے شہاب

دیکھ کر بیٹھا تجھے غیروں کے ساتھ
لوگ دیتے ہیں مجھے طعنے شہاب

ذات اپنی میں نے خود تعمیر کی
عشق کے ہی اینٹ گارے سے شہاب
وہ رکے جس موڑ پر کہتے ہیں لوگ
سانس لیتے ہیں وہاں لمحے شہاب

سادگی نے درس سب مجھ کو دیے
جا بجا کھاتا رہا دھوکے شہاب

تم ملے تو خود سے بھی ہم مل گئے
ورنہ خود کو ڈھونڈتے رہتے شہاب

Related posts

Leave a Comment