وہ جو بچھڑا تو کہیں بھی مری شنوائی نہ تھی
اس کی پھر بعد میں کوئی بھی خبر آئی نہ تھی
اس کا گھر تو تھا مرے گھر سے بلندی پہ بہت
اس کی سوچوں میں مگر کوئی بھی اُنچائی نہ تھی
رات ہم راز تھی آتی تھی ہر اک چیز نظر
دن جو روشن ہوا پھر آنکھ میں بینائی نہ تھی
مہرباں ان پہ اگرچہ رہا مہ تاب فلک
روشنی میرے ستاروں کی بھی ہرجائی نہ تھی
عمر بھر چلتے رہے ہاتھ میں ہم ہاتھ لیے
سچ تو یہ ہے کہ ذرا بھر بھی شناسائی نہ تھی
اس کے کلمات بہت سخت تھے یہ مان لیا
اس کی باتوں سے مجھے کوئی بھی رسوائی نہ تھی
گفتگو کرتا تھا جیسے کوئی خوشبو ہو شہاب
شہر میں اس کی مہک کی بھی پزیرائی نہ تھی
