اک عمر جو ہم نے خون تھوکا
دل نرم نہیں ہوا کسو کا
جب موت کی منتظر ہوں سانسیں
دورانیہ ہے وہ کرفیو کا
بارود ہے اس قدر سرِ خاک
امکان ہی چھن گیا نمو کا
بہتر ہے کہ بے طلب ہی جی لو
یہ عہد نہیں ہے آرزو کا
ہستی ہے ہماری، یاد جس کی
وہ ہم کو بھلا چکا کبھو کا
حد سے جو گزر رہے ہیں ہم تم
حاصل ہے کوئی تو جستجو کا
اب تک ہے وہی زبان بندی
عالم ہے ہنوز کوئی ہُو کا
ڈوبے تھے وہاں بھی اپنے بجرے
آتا ہے خیال آبجو کا
ہو کاش ثبات ہم کو تب تک
جب تک ہے وجود رنگ و بو کا
جب فصلِ حیات کٹ چکی ہے
پھر کیوں ہے یہ تن بدن بجوکا
اس چشم کی داد ہی ہے کافی
شہرت کا ظفر نہیں ہوں بھوکا