آنکھ وہ جھلمل تاروں سی
دور کے منظر زاروں سی
مست بھی ہے ہشیار بھی وہ
گرم نظر دل داروں سی
کھنچی کمان بھویں ہیں کیا
اڑتی کونج قطاروں سی
بھید سجھاتی آنکھوں میں
روک بھی ہے دیواروں سی
سیر کریں، اور لوٹ آئیں
پلک تلے، تھک ہاروں سی
روپ کی نکھری نکھری دھوپ
صبح صبیح بہاروں سی
میم ملاحت چہرے کی
نون نمک کہساروں سی
اس کا روپ سروپ انوپ
خوش طبعی گل زاروں سی
ایک نگہ کوئی کیا دیکھے
صورت صد نظّاروں سی