طارق بٹ ۔۔۔ یہ زندگی جو مرے چار سو ہُمکتی ہے

یہ زندگی جو مرے چار سو ہُمکتی ہے
اِسی میں عصر کی آئندگی جَھلکتی ہے
فریب دیتی ہے آنکھوں کو روشنی اس کی
وداعِ شب، یہ جو کاذب سی لو بھڑکتی ہے
اِسی دیار، کہ ہر سو سماں تھا میلے سا
کسی تلاش میں، ویرانگی بھٹکتی ہے
رہے نہ اب وہ سبک گام، قافلے، دل کے
نہ خاک اُٹھ کے سرِ راہ سر پٹکتی ہے
گلہ گزار نہ تجھ سے نہ اپنے آپ سے ہوں
اسی کے کام ہیں، سارے میں جس کی شکتی ہے
ہے غوطہ زن یہ نظر آج، کون منظر میں
کہ ڈوبی جاتی ہے، جوں جوں پلک جھپکتی ہے
جب آنکھ موند کے بیٹھوں تو بس تجھے دیکھوں
بھرا ہے جام، سو اکثر یہ مے چھلکتی ہے

Related posts

Leave a Comment