طارق بٹ ۔۔۔ دیا بھی نام کا اُن کے جلا دیا گیا ہے

دیا بھی نام کا اُن کے جلا دیا گیا ہے
وہ جن کو بجھنے سے پہلے بجھا دیا گیا ہے

کہ سرخ رو نہ ہوئی زندگی کبھی جن سے
اُنھی کے پیچھے زمانہ لگا دیا گیا ہے

قیامِ صبح تلک ہی تری ضرورت تھی
یہ کہہ کے جانے کا رستہ دکھا دیا گیا ہے

وہاں اندھیروں سے الجھا رہا دھواں تا دیر
جہاں کہیں بھی دیوں کو بجھا دیا گیا ہے

ہوا کی تیغ پہ رقصاں دیے کی لو کی قسم
نشانِ زندگی جس کو بنا دیا گیا ہے
۔۔۔۔۔۔ق۔۔۔۔۔
کہ جی رہے ہیں مقدر کی تاب لاتے ہوئے
ستارہ سا ہمیں جس جا، سجا دیا گیا ہے

ہمی سے رونقِ دنیا، ہمی سے بزمِ عدم
سبھا ہے اپنی جہاں بھی بٹھا دیا گیا ہے

جلا ئے دیتی ہے ہم کو یہ زندگی کی لو
چراغِ جاں تہِ داماں ہوا دیا گیا ہے

تھا حرف حرف ہی دامن کشاں پہ مصرعۂ جاں
جہاں بھی بس میں ہوا ہے سنا دیا گیا ہے

Related posts

Leave a Comment