پسند کرنا تھا جس کو کہاں پسند کیا
چراغ چھوڑ کے ہم نے دھواں پسند کیا
تمھارے واسطے آسانیاں فراہم کیں
اور اپنے واسطے ہر امتحاں پسند کیا
میں اپنی بات سناتا تھا اور زمانے نے
تمھارا ذکر سرِ داستاں پسند کیا
میں اپنے بارے میں کچھ ایسا خوش گمان نہیں
زہے نصیب اگر تم نے ہاں پسند کیا
زمین سے بھی تعلق بحال رکھا ہے
یہی نہیں کہ فقط آسماں پسند کیا
خمارِ دشت نوردی سے بے خبر ہی رہا
وہ جس نے اپنے لیے سائباں پسند کیا
ہمارا عشق منافع مزاج تھا ہی نہیں
اسی لیے تو ہمیشہ زیاں پسند کیا
نظر قرینۂ نظارگی سے واقف ہے
اس ایک زعم میں حسنِ بتاں پسند کیا
ہمارے دل نے رکھا پاس وضع داری کا
عزا شعاری میں ضبطِ فغاں پسند کیا
ہر ایک شے تو مقدر میں ہو نہیں سکتی
تو کس گھمنڈ میں سارا جہاں پسند کیا
اسے بھی پار اترنے کی آس ہے جس نے
شکستہ ناؤ، پھٹا بادباں پسند کیا
ہر ایک تنکا ہے مائل بہ خستگی طالب
کہ دیکھ بھال کے کب آشیاںپسند کیا