گنتی میں بے شمار تھے کم کر دیے گئے
ہم ساتھ کے قبیلوں میں ضم کر دیے گئے
پہلے نصابِ عدل ہُوا ہم سے انتساب
پھر یوں ہُوا کہ قتل بھی ہم کر دیے گئے
پہلے لہو لہان کیا ہم کو شہر نے
پھر پیرہن ہمارے علَم کر دیے گئے
ہر دور میں رہا یہی آئینِ منصفی
جو سر نہ جھک سکے وہ قلم کر دیے گئے
اِس دورِ نا شناس میں ہم سے عرب نژاد
لب کھولنے لگے تو عجم کر دیے گئے
جب درمیاں میں آئی کمالِ بشر کی بات
ہفت آسمان زیرِ قدم کر دیے گئے
پہلے ہی کم تھی قریۂ جاناں میں روشنی
اور اس پہ کچھ چراغ بھی کم کر دیے گئے
تشنہ جو لفظ مصلحتاً ہم نہ کہہ سکے
دیوارِ وقت پر وہ رقم کر دیے گئے