آنکھ میں نم نہ رہے گریہ و زاری جائے
ایسی تصویر کوئی دل میں اتاری جائے
بال بکھرائے جو تو نے تو خیال آیا مجھے
زندگی زلف کے سائے میں گزاری جائے
ہم نے مانا کہ یہ آسودگی قسمت میں نہیں
پھر بھی تقدیر کسی طور سنواری جائے
زندگی جتنی بھی باقی ہے ترے رسوا کی
سانس در سانس ترے ہجر پہ واری جائے
میں قبیلے کے رواجوں کا بھرم توڑ چکا
اب یہ دستار مرے سر سے اتاری جائے