کہیں مَیں جگنو، کہیں مَیں تتلی بنا رہا ہوں
سو بات یہ ہے کہ تجھ کو ہنسنا سکھا رہا ہوں
گریز پائی کی ساعتوں میں مہکنے والی
میں تیری جانب ہر ایک جانب سے آ رہا ہوں
دلوں پہ گرتی رہیں گی شعروں کی اُجلی کلیاں
میں اپنی تازہ غزل کی شاخیں ہلا رہا ہوں
وہ جلتے بجھتے دیے کی لو کی طرح ہے روشن
میں اپنے بچپن کی اس کو باتیں سنا رہا ہوں
خیال تیرا‘ سروپ تیرا‘ شبیہ تیری
میں اپنے لفظوں کی روشنی میں نہا رہا ہوں