عزم الحسنین عزمی ۔۔۔ دو غزلیں

مانتی کب تھی یہ ہونے پر، مگر ہونا پڑا
راہ کی دیوار کو اس بار در ہونا پڑا

آ گیا تو بس خدا ہونے کا ہی گُر سیکھ کر
کل کلاں پھر آدمی تجھ کو اگر ہونا پڑا

بانٹ دی اپنی سمجھداری یہاں پر اس لیے
مجھ کو پاگل وقت سے کچھ پیشتر ہونا پڑا

آخرش تھا قیس کی گدی نشینی کا سوال
سو ہوا برباد مجھ کو جس قدر ہونا پڑا

گھر نہیں بس، کاش وہ بھی دیکھ لو اے حاسدو
عمر بھر اس کے عوض جو دربدر ہونا پڑا

مطمئن یوں تو رہا ہوں وقت کے انصاف پر
بس پریشاں درد کی تقسیم پر ہونا پڑا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نئے قرینے نئی چال ڈھال دیتا ہوں
غزل کو روز نیا اک خیال دیتا ہوں

وہ حبس ہے کہ میں اکثر فقط لباس نہیں
بدن اُتار کے کھونٹی پہ ڈال دیتا ہوں

کبھی صدائیں مرے پاس رکھ کے جا ساری
میں ان سے سسکیاں چُن کر نکال دیتا ہوں

زمانوں بعد ملاقات ہے مری خود سے
تم آرہے ہو تو پھر خود کو ٹال دیتا ہوں

سب اچھے وقت میں کرلوں نہ خرچ یار کہیں
کڑے دنوں کے لیے کچھ سنبھال دیتا ہوں

اسی لیے مجھے کہتے ہیں بحرِذوق یہاں
میں روز لعلِ سخن جو اچھال دیتا ہوں

Related posts

Leave a Comment