جلا تیری تمنّا کا چراغ آہستہ آہستہ
ملا مجھ کو حقیقت کا سراغ آہستہ آہستہ
دبے پاؤں یہ دنیا خلوتِ خوں میں اترتی ہے
پکڑتا ہے جگہ دل پر یہ داغ آہستہ آہستہ
بس اک لچکیلی،شرمیلی،رسیلی نرم ٹہنی سے
کھِلا تھا سامنے میرے وُہ باغ آہستہ آہستہ
یہ بے معنی سہانی دھڑکنیں آباد رہنے دو
کہیں دل بھی نہ ہو جائے دماغ آہستہ آہستہ
پرانا شہر نکلا ہے کوئی دل کی کھدائی سے
ملے گا اب مجھے خود سے فراغ آہستہ آہستہ
خبر تھی اس لیے میں تشنگی میں سر کشیدہ تھا
مری جانب جھکے گا وہ ایاغ آہستہ آہستہ