علی اصغر عباس … وفورِ گریہ سے بہتر خوشی نہیں کوئی

وفورِ گریہ سے بہتر خوشی نہیں کوئی
ہمیں ملی بھی تو بڑھ کر ملی نہیں کوئی

غمی خوشی میں جو آنسو کلام کرتے ہیں
زبان ایسی مؤثر  بنی نہیں کوئی

خوشی غمی کو تُو  رنگوں سے نسبتیں مت دے
سفید اور سیہ میں چھپی نہیں کوئی

بدن کے زخموں سے بڑھ کر تو دل پہ چرکے ہیں
نشاط خیز اذیت بچی نہیں کوئی

نوائے درد کی تانیں بھی ہچکیوں سی ہیں
چُھوئی لبوں سے مگر بانسری نہیں کوئی

بدن کے چیتھڑے پہنے ہوئے ہیں روحوں نے
لباسِ فاخرہ  میں دلکشی نہیں کوئی

تڑپ تڑپ کے اکیلے میں جان دینی ہے
یہ طے شدہ ہے تو پھر خوف ہی نہیں کوئی

شعاعِ رنج نے خورشید راکھ کر ڈالا
غمِ حسین کی آیت پڑھی نہیں کوئی

ہمارے پاس بھی کہنے کو داستانیں تھیں
کسی نے پاس بٹھا کر سنی نہیں کوئی

لکھا وہی ہے جو بیتا ہے جان پر اصغر
کہانی پاس سے گھڑ کر لکھی نہیں کوئی

Related posts

Leave a Comment