علی حسین عابدی ۔۔۔ خدا کو مان غضب سے نہ یوں پکار مجھے

خدا کو مان غضب سے نہ یوں پکار مجھے
کرے گا سیلِ رواں پھر سے اشک بار مجھے

میں اپنی آنکھ سے اوجھل رہا ہوں دیر تلک
غموں کی دھول نے ایسا کیا غبار مجھے

میں خود شناس جو ہوتا اگر خدا کی قسم
مرا خلوص رُلاتا نہ بار بار مجھے

رہا ہوں ذات کے بحرِ عمیق میں کل تک
کیا ہے تیری محبت نے آشکار مجھے

فراق دل میں محبت جلائے رکھتا ہے
اب ایک پل بھی میسر نہیں قرار مجھے

مرا غنیم مجھے بے ثبات کر نہ سکا
کیا ہے تیرے تغافل نے بے قرار مجھے

رہے جو گردشِ دوراں میں عابدی مرے ساتھ
تمام عُمر رہا اُس کا انتظار مجھے

Related posts

Leave a Comment