حضورِ شاہ چلیں گے، صدا کریں گے ہم
جو کوئی زخم سے چیخ اُٹھا، کیا کریں گے ہم
فضا کے محبس ِ بے رنگ سے نکلنے کو
بہت ہُوا تو پرندے رہا کریں گے ہم
ہمارا ظرف اگر آزمانا چاہتا ہے
وہ ابتدا تو کرے، انتہا کریں گے ہم
کسی بلا سے محبت گزرنا چاہتی ہے
خراج اس کو مگر کیا ادا کریں گے ہم
نہ دیکھ مرتی ہوئی رات کی یہ آخری سانس
نہ دن ہی نکلا تو سورج کو کیا کریں گے ہم
ہزار داغِ شبِ غم، گُلِ سحر کا صلہ
تو کیا ملے گا اگر دل بُرا کریں گے ہم
درِ یقیں درِ امکاں کے ساتھ ہے خالد
سو ایک دَر کو کبھی نیم وا کریں گے ہم