زمیں کا اور ہی کچھ رنگ تھا فضا کا اور
میں اک نگاہ میں قائل ہُوا خُدا کا اور
سُلگ رہا تھا تو اُس نے مجھے ہوا دی تھی
میں جل اُٹھا تو ارادہ ہُوا ہوا کا اور
سحر سے شام تلک کارواں اُترتے رہے
تو رنگ ہونے لگا دشتِ نینوا کا اور
چراغِ وصل کہیں اور بھی بھڑکتا تھا
دُعا کا اور نشانہ تھا مُدعا کا اور
ابھی میں پُوری طرح ڈوب بھی نہیں پایا
ہُوا ہے نیند کے دریا میں اک چھناکا اور