منزلِ عشق عیاں ، زیست کا حاصل معلوم
ہے مرے چارہ گروں کو مری مُشکل معلوم
کون ہو گا جسے دُھتکار دیا جائے گا
کون ہو گا ترے احباب میں شامل معلوم
دہر بدلا ہے نہ دُنیا کی روش بدلے گی
کون ہو گا یہاں تکریم کے قابل معلوم
اپنی تہذیب کے پابند رہا کرتے ہیں
اور ہوتے ہیں انھیں سارے سلاسل معلوم
کس پہ ڈالے گا عنایت کی نظر ، جانتے ہیں
کون ہے اُس کے تئیں عشق میں کامل معلوم
منتخب اُس کو کِیا ہے مری دل داری کو
جس کو ظاہر کی خبر اور نہ داخل معلوم
نقشِ لب بستہ کبھی ، صورتِ گفتار کبھی
رنگ بدلے گی ابھی اور بھی محفل معلوم
چہچہے رنگ کے محتاج تھے ساجد صاحب
باغ مہکا تو ہوا شورِ عنادل معلوم
۔۔۔(2)۔۔۔
کچھ نہیں عالمِ خاکی کے مماثل معلوم
نقشِ دیروز نہ ہو گا کبھی زائل معلوم
خواب ٹُوٹا تو میں اپنے ہی تعاقب میں تھا
کوئی اپنا ہے مری نیند کا قاتل معلوم
وہ جنھیں میرے تحمُّل سے پریشانی ہے
کیا نہیں اُن کو تغافل کے مراحل معلوم
کون سی راہ سمندر کی طرف جاتی ہے
ڈوب جاتا ہے کہاں دشت میں محمل معلوم
راستے ڈولتے قدموں سے لپٹ جائیں گے
سامنے آ کے رہے گی مری منزل معلوم
اپنے ہی عکس سے ڈر جاتے ہیں تنہائی میں
کوئی پردے میں کہیں ہے نہ مقابل معلوم
دل میں جو کچھ ہے وہی میری زباں پر بھی ہے
حق سے نسبت ہے مجھے اور نہ باطل معلوم
پاؤں رُک جائیں گے جب اُس سے اجازت کے لیے
میرے قابو میں نہ آئے گا مرا دل معلوم
اپنی تعریف میں کیا عرض کروں اب ساجد
ہیں مجھے حضرتِ انساں کے فضائل معلوم