دنیا میری بلا جانے مہنگی ہے یا سستی ہے
موت ملے تو مفت نہ لوں ہستی کی کیا ہستی ہے
آبادی بھی دیکھی ہے، ویرانے بھی دیکھے ہیں
جو اُجڑے اور پھر نہ بسے دل وہ نرالی بستی ہے
خود جو نہ ہونے کا ہو عدم کیا اسے ہونا کہتے ہیں
نیست نہ ہو تو ہست نہیں یہ ہستی کیا ہستی ہے
عجزِ گناہ کے دم تک ہیں عصمتِ کامل کے جلوے
پستی ہے تو بلندی ہے رازِ بلندی پستی ہے
جان سی شے بک جاتی ہے ایک نظر کے بدلے میں
آگے مرضی گاہک کی ان داموں تو سستی ہے
وحشتِ دل سے پھرنا ہے اپنے خدا سے پھر جانا
دیوانے یہ ہوش نہیں یہ تو ہوش پرستی ہے
جگ سونا ہے تیرے بغیر آنکھوں کا کیا حال ہوا
جب بھی دنیا بستی تھی اب بھی دنیا بستی ہے
آنسو تھے سو خشک ہوئے، جی ہے کہ اُمڈا آتا ہے
دل پہ گھٹا سی چھائی ہے، کھلتی ہے نہ برستی ہے
دل کا اجڑنا سہل سہی، بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں، بستے بستے بستی ہے
فانی جس میں آنسو کیا دل کے لہو کا کال نہ تھا
ہائے وہ آنکھ اب پانی کی دو بوندوں کو ترستی ہے